RUMORED BUZZ ON URDUPOETRY,DANIKIBATAIN,ALLAMAIQBALPOETRY,ISHQPOETRY,

Rumored Buzz on urdupoetry,danikibatain,allamaiqbalpoetry,ishqpoetry,

Rumored Buzz on urdupoetry,danikibatain,allamaiqbalpoetry,ishqpoetry,

Blog Article

Allama Iqbal is one of the better poets of urdu and countrywide poet of Pakistan. we provide the very best collection of Allama Iqbal Poetry on all matters like youth, islam, inspirational poetry and shorter poems. His poetry is translated into lots of languages all around the planet.

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

عشق قاتل سےمقتول سےہمدردی بھی عشق قاتل سےمقتول سےہمدردی بھی

سرشکِ چشمِ مُسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا سرشکِ چشمِ مُسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا

it had been he who to start with described The 2-nation principle. It was he who, for The very first time in hundreds of years, needed and gave hope into the Muslims with the subcontinent to possess a different and impartial country of their own.

ایک نوجوان کے نام ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی ..

these are typically several of the most famed and common rates of Allam Iqbal in the course of his lifetime. These quotes ended up narrated at unique instances and instances. nevertheless the meaning and also the implications are the exact same.

وجود_زن سے ہے تصویر_کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز_دروں

Allama Iqbal, often hailed given that the spiritual father of Pakistan, holds a distinguished position in Urdu poetry and literature.

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں_نما ہو ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو ہو دل_فریب ایسا کوہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن میں اس کا ہم_نوا ہوں وہ میری ہم_نوا ہو کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر_نما ہو پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے رونا مرا وضو ہو نالہ مری دعا ہو اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے بے_ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا.. عاقب عرفان

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے یہ عقل و دل ہیں شرر شعلۂ_محبت کے وہ خار_و_خس کے لیے ہے یہ نیستاں کے لیے مقام_پرورش_آہ_و_نالہ ہے یہ چمن نہ سیر_گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے رہے_گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحر_بیکراں کے لیے نشان_راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو ترس گئے ہیں کسی مرد_راہ_داں کے لیے نگہ بلند سخن دل_نواز جاں پرسوز یہی ہے رخت_سفر میر_کارواں کے لیے ذرا سی بات تھی اندیشۂ_عجم نے اسے بڑھا دیا ہے فقط زیب_داستاں کے لیے مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرائیل_آشوب سنبھال کر جسے رکھا ہے لا_مکاں کے لیے

Iqbal asked us to follow his social reforms by releasing our intellect within the chains of anxiety, limitations, and slavery. By doing this, young people could become leaders in the nation.

In his poetry, Iqbal focuses on providing the message of a pure, spiritual give attention read more to Islam. Iqbal consistently mentioned the Ummah and condemned the political, social, and ethnic divisions inside and amid Muslim nations.

If faith is dropped, there's no protection, and there's no daily life for him who would not adhere to faith.

He intended to say the New Dawn could only originate from teens capable of liberating themselves from external acquisitiveness and resurgence in their inner fireplace. The interior hearth refers back to the really like of God, Prophet, and toward the religion. Contrary, external acquisitiveness is called the western or imperialist oppression that may be jolting us to our roots.

Report this page